Faraz Faizi

Add To collaction

30-Aug-2022-تحریری مقابلہ(ذمہ داری) اسلامی تصور اور ذمہ داری


راقم الحروف: فرازفیضی، کشن گنج بہار۔

یہ بات مسلّم ہے کہ انسان ایک اجتماعی يا معاشرتى مخلوق ہے، اور وہ اپنی شخصیت کو ترقی دینے کے لئے انسانی معاشرہ کا محتاج ہے، اور دوسری جانب اس انسانی معاشرہ کے تئیں اس پر ادبی اور اخلاقى پابندیاں عائد ہوتی ہیں، اور یہ پابندیاں اسکے انسانی وجود کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی ہیں۔
ذمہ داری انسان کی ایک امتیازی صفت ہے، یہ ایسی صفت ہے جسے وہ باہر سے لینے سے پہلے خود اپنی فطرت انسانی سے حاصل کرتا ہے، ہر انسان کو کسی نہ کسی صورت میں ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے، اور طبیعت جتنی زیادہ پاکیزہ ہوگی ذمہ داری کا شعور اتنا ہی زیادہ ہوگا۔
ذمہ داری انسان کے لئے عزت و تکریم کی بات ہے، کیونکہ وہ آزادی، خود مختاری، عزت نفس، اور قوت کے مترادف ہے۔
ذمہ داری کا احساس ہر انسان کو ہوتا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے ہم اپنی حشاش اور بیدار زندگی میں اس سے پوری طرح الگ نہیں ہو سکتے، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک شخص کی بنسبت دوسرے میں یہ شعور مختلف ہوتا ہے۔

اسلامی تصور میں ذمہ داری فردی عمل ہے، لہذا ایک شخص دوسرے شخص کا بوجھ نہیں اٹھائے گا: } كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ { ( ہر شخص اپنے اعمال كے بدلے ميں گروى ہے) (سورۂ مدثر: 38)


ذمہ داری كے دو پہلو ہيں، اول:
ہر انسان پر اس کے نفس کی ذمہ داری ہے، کہ وہ عقل، علم، جسم، مال، اور وقت کا ذمہ دار ہے، اور عام طور پر اپنی زندگی کا، اس سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے، " فرمایا نہ ہٹیں گے قدم كسى بندے كے یہاں تک كہ پوچھا جائے اس سے كہ عمر اپنى كس میں فنا كى اور علم سے اپنے كس پر عمل كیا اور مال كہاں سے كمایا اور كہاں خرچ كیا اور جسم كو كس میں لگایا"(ترمذی ، کتاب، صفۃ القیامۃ، (یہ حدیث حسن اور صحیح ہے)۔ معلوم ہو کہ انسان کسی بھی شعبہائے زندگی سے وابسطہ ہو وہ اپنے فرض منسبی کا ذمہ دار ہے اور اپنی بساط کے مطابق ذمہ داری پورا کرنے کا اہل و جواب دہ۔اگر کوئی وسیع پیمانے پر حکومتی امور کا اہل ہے تو وہ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اپنی رعایہ اور سلطنت کی خوشحالی و ترقی اور عدل و انصاف کے نفاظ کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہے، اگر کوئی عالم دین یا کسی طور سے دینی و مذہبی راہنما ہے تو اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قوم سے بے دینی و بے راہروی کو دور کرے، جہالت کے اندھیرے کو تعلیم و تعلم اور تربیت روشنی سے کافور کردے۔یونہی کسی کی شخصی حیثیت خاندان میں ایک مکھیا یا سرپرست کی سی ہے تو اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے ماتحت سبھی افراد کی نگہداشت کرے۔الغرض زندگی کے تمام شعبوں میں احساس ذمہ داری اور پاسدارئ ذمہ داری نہایت ضروری و لازمی ہے۔

دوم: وہ ذمہ داری جو ایک انسان کی دوسرے انسان پر اور اس دنیا اور جہاں كى ذمه دارى،
آپ ﷺ نے فرمایا كہ" تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس كے ماتحتوں كے متعلق اس سے سوال ہوگا- حاكم نگراں ہے اور اس سے سوال اس كى رعیت كے بارے میں ہوگا، انسان اپنے گھر كا نگراں ہے اوراس سے اس كى رعیت كے بارے میں سوال ہوگا، عورت اپنے شوہر كے گھر كى نگراں ہے اور اس سے اس كى رعیت كے بارے میں سوال ہوگا- خادم اپنے آقا كے مال كا نگراں ہے اور اس سے اس كى رعیت كے بارے میں سوال ہوگا، اور تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس كى رعیت كے بارے میں سوال ہوگا"(بخاری ، کتاب الجمعہ)

معزز قارئین! 
فی زمانہ ایسے لوگوں کی بہتات ہے جو خود سے صادر ہونے والے غلط افعال کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ ازل سے مقدر ہے اور جو اللہ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے وہ اسکے برخلاف کرنے کی قدرت نہیں رکھتے، اس کی مثال یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک چور کو لایا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: تم نے چوری کیوں کی؟ تو اس نے جواب دیا: یہ اللہ تعالی نے میری تقدیر میں لکھ دیا ہے میں اس کو ٹال نہیں سکا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ کاٹنے اور تیس کوڑے مارنے کا حکم دیا، تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: کہ آپ نے حد میں زیادتی کی ہے، چوری کی حد کو قائم کرنے کے بعد آپ کو کوڑے مارنے کا حق نہیں ہے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا: کہ میں نے کوڑے مارنے کا حکم اس لئے دیا کہ اس نے اللہ پر بہتان باندھا، وہ کیسے جانتا ہے کہ اللہ نے چوری کرنا اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے؟۔
اسی طرح کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے سرزد ہونے والے جرم و گناہ کی براءت میں مقدر اور قسمت كو دوشی ٹھہرائے، كيونكہ اس پر عائد ذمہ دارى قائم ہے اور روز ازل سے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بندے کی تقدیر میں لکھا ہے وہ وہی کچھ لکھا گیا ہے جو بندہ اپنے ارادے و اختیار سے کرنے والا تھا۔ بخاری شریف میں ہے کہ انسان کی پیدائش سے تقریباً پچاس ہزار سال پہلے انسان کی تقدیر لکھی گئی اور وہی کچھ لکھا گیا جو وہ کرنے والا تھا، اللہ تعالیٰ نے زبردستی یا اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا اگر ایسا مان لیا جائے تو یہ اللہ پر بہتان ہوگا۔پھر قرآن مجید میں پروردگار عالم نے صاف لفظوں میں واضح فرمادیا کہ انسان اپنے ہر چھوٹے بڑے فعل کے صادر ہونے کا ذمہ دار ہے۔ }فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (7) وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ { (توجو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا۔اور جو ایک ذرّہ بھر برائی کرے اسے دیکھے گا۔) (سورۂ زلزلہ: 7- 8) اب بندے کی اول ترین ذمہ داری تو یہی ہونی چاہئے کہ جس رب نے اسے پیدا کیا کبھی بن مانگے تو کبھی مونہ مانگی سب کچھ عطا کیا، اسی کی رضا و خوشنودی کیلئے زندگی کے شب و روز گزارے، اسی کی راہ چلے، اور اسکے احکام کی بجاآوری اور محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزاری کر کے بارگاہ عبودیت میں عبدیت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے۔

پیارے قارئین! یہ یاد رکھیں کہ آپ جس بھی شعبے میں ہیں، اس بات کے پیچھے کبھی نہ بھاگیں کہ کوئی نہیں کررہا! بلکہ اس بات کیلئے خودکو خوش قسمت جانیں کہ وہ موقع آپ کو ملا ہے اور اسے حتمی طور پر اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے حصے کی کارکردگی 100% دینا ہے۔ہر سلیم العقل انسان جانتا ہے کہ اگر وہ دوسروں کے بارے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائےگا، تو اسے بھی حق نہیں ہے کہ وہ دوسروں سے امید رکھے کہ کوئی اسکی ذمہ داری نبھائے، اگر ہم کسی اور کے ساتھ انصاف نہیں کرتے تو ہمیں بھی حق نہیں ہے کہ ہم ان سے اپنے حق میں انصاف کی امید رکھیں۔

   8
4 Comments

Raziya bano

31-Aug-2022 08:04 PM

نائس

Reply

Saba Rahman

30-Aug-2022 11:54 PM

Nice

Reply

Simran Bhagat

30-Aug-2022 09:08 PM

ماشاءاللہ ماشاءاللہ❤️

Reply